برجستہ: راحت علی صدیقی قاسمی
وادی کشمیر خوبصورت، حسین، دلکش مناظر کی بستی، جنت نشاں فطرت کے خوب صورت مناظر کا مظہر، ہندوستان کا حسن، اس کے ماتھے کا جھومر، قدرت خداوندی کا مظہر 12.55 ملین افراد کی بستی، پہاڑوں اور سبزہ زاروں کی خوبصورتی سے پُر، 222,236 کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی یہ وادی، دنیا میں جنت سے کم نہیں ہے مگر وہاں بہت سے مسائل ہیںجو جہنم کی جھلکیاں دکھاتے ہیں اور درد و کرب کی ناقابل یقین داستانیں تاریخ کے سینے پر رقم ہوجاتی ہیں، یوں ہی شب و روز کا گذران ہے،کشمیری کبھی اس پارٹی پر اعتماد کرتے ہیں تو کبھی کسی جماعت پر مگر خوشگوار حالات انہیں میسر نہیں آتے اور تبدیلی اس معیار پر کھری نہیں اترتی جو ان کی تمنا، خواہش اور آرزو ہے۔ اسی پس منظر میں گذشتہ انتخابات میں بی جے پی اور پی ڈی پی نے مل کر حکومت قائم کی اور وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سیاست کے عظیم کھلاڑی مفتی سعید جو اس سے پہلے بھی کشمیری عوام کا بھروسہ جیت چکے تھے اور اپنی سیاسی قابلیت کا لوہا پورے ہندوستان میںمنوا چکے تھے اپنا ہو یا مخالف ہر کوئی ان کی سیاسی بصیرت کا قائل تھا، یہی وجہ تھی کہ جب سیاسی گلی کوچوں میں یہ صدا بلند ہوئی کہ محبوبہ مفتی کے سر پر تاج رکھا جائے گا مگر مفتی سعید کی سیاسی بصیرت کا لوگوں نے کھلی آنکھوں مظاہرہ کیا اور انہوں نے ان آوازوں کو مسترد کردیا، ان خیالات کو غلط ثابت کردیا اور خود کشمیر کی زمام کار سنبھالی۔
اس اتحاد کو ہوئے چند ماہ ہی گذرے تھے کہ مفتی سعید کا انتقال ہوگیا اور پھر وہی آوزیں بلند ہوئیں، وہی سوالات فضا میں گونجنے شروع ہوئے کیا یہ اتحاد برقرار رہے گا؟ یا ٹوٹ جائے گا؟ کیا محبوبہ مفتی اس کی قیادت کریں گی؟ کیا وہ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں مگر ان سوالوں کے جوابات ابھی نہیں ملے اور نہ ابھی تک یہ مسئلہ حل ہوسکا کہ مستقبل میں کشمیر کا وزیر اعلیٰ کون ہوگا؟ کون ریاست میں تخت نشین ہوگا؟ جب کہ مفتی سعید کے انتقال کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گذر چکا ہے لیکن ابھی تک یہ قصہ فنا کے گھاٹ نہیں اترا اور آگے بھی اس کے خاتمہ کے امکانات کم ہی نظر آرہے ہیں۔ 77 سال کی عمر میں مفتی سعید نے جو کارنامے انجام دئیے وہ بہت بلند ہیں، ان کا سیاسی قدبہت اونچا ہے، جن حالات سے نبرد آزما ہو کر پی ڈی پی کو ان بلندیوں تک پہنچایا ، ہندوستان کے پہلے مسلم وزیر داخلہ بننے کا شرف حاصل کیا۔ محبوبہ ابھی سیاست میں بلند قامت نہیں ہیں، ان کی مشکل ہے اگر چہ وہ عمر کے 56 وے پڑائو پر ہیں لیکن ابھی ان کا سیاست کی دنیا میں وہ قد نہیں، اس فکر کے پیش نظر وہ خوف زدہ ہیں، اس لئے پوری طرح سے معاملات کرلینا چاہتی ہیں، کہیں وہ اپنی سیاسی کمزوریوں کے باعث استحصال کا شکار نہ ہوجائیں یا بی جے پی کے قدآور لیڈران ان کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان نہ لگادیں، یہ وہ پہلو ہیں جو محبوبہ کو سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں حالاںکہ محبوبہ بھی تعلیم یافتہ اور قابل ہیں مگر مفتی سعید کے انتقال کے بعد ہی انہیں ان مسائل کا احساس ہوگیا تھا۔ لہٰذا نہوں نے ایک خوبصورت تدبیر کی چوتھے تک اس سلسلے کی گفتگو کو موخر کرکے پھر چوتھے کے بعد سے آج تک ان کے فیصلے کا نہ صرف بی جے پی بلکہ عوام کو بھی انتظار ہے۔ پتہ نہیں یہ انتظار ابھی کتنا طویل ہے مگر اسی کے
ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر یہ اتحاد ٹوٹتا ہے تو دونوں پارٹیاں انتخاب میں اپنی ساکھ بچا پائیں گی؟ کیا عوام ان سے پوری طرح مطمئن ہیں؟ کیا ان کے مسائل، ان کا حل اس حکومت نے پیش کیا؟ اور ان کے سینوں پر لگے زخموں کو مندمل کرنے میں کامیاب رہی؟ تو بلا کسی تردد کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایسا نا ہوسکا یہاں تک کہ مزدور طبقہ کا عالم تو یہ ہے کہ ان کو اتنا کم راشن مہیا ہوتا ہے کہ وہ اپنا پیٹ نہیں بھر پاتا۔ 2001 میں حکومت کی طرف سے جو راشن تھا آج بھی وہی ہے حالاںکہ اس عرصے میں جتنی آبادی بڑھی، ہر ذی شعور اس کا ادراک کر سکتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ لوگ پیٹ کی بھوک اور ظلم کی تاب نہیں لاپاتے۔ اور دوسری طرف بی جے پی کی چوطرفہ مذمت، تذلیل برائی اور ہندوستان میں پھیلتی فرقہ پرستی، نوجوانوں کی ہوتی گرفتاریاں، علماء کو ہراساں کیا جانا، اقلیتی طبقوں کا استحصال، بڑھتی مہنگائی، وزیر اعظم کا بے اثر اور ناکام ثابت ہونا بی جے پی کے پاس ریاست میں متبادل نہ ہونا، کوئی بااثر اور پروقار چہرہ نہ ہونا، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر بی جے پی اتحاد ٹوڑنے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لارہی ہے۔ البتہ وہ پی ڈی پی کو درپیش مسائل سے بھی بے خبر نہیں، انہیں معلوم ہے پی ڈی پی کے لئے بھی انتخاب کی راہ آسان نہیں ہے، اس لئے وہ اقدامی طور پر محبوبہ کو منانے کے لئے تیار نہیں ہے اور خود اتحاد توڑنے کا بھی ان کے پاس کوئی خاص مقصد نہیں ہے، اس لئے معاملہ انتہائی دلچسپ ہوگیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا محبوبہ اس اتحاد کو توڑنے کا حوصلہ کر پائیں گی؟ اگر چہ ان کے پاس ایک نکتہ یہ ہے کہ مفتی سعید کا انتقال ان کے لئے ہمدردی کا سبب بن سکتا ہے۔ اور بے سہارا کو سہارا دینے کا۔ ہندوستانی مزاج ان کی راہ آسان کر سکتا ہے، مگر یہ راستہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو محبوبہ نے اختیار کرلیا ہوتا اور اتحاد توڑدیا ہوتا کیوںکہ ابھی تک ان کے اتحاد توڑنے کے اشارات دھمکیوں سے زیادہ محسوس نہیں ہوئے ہیں۔ اور ان کی اب تک کی کارروائی کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ انتخاب چاہتی ہیں۔ جہاں عوام بی جے پی سے ناراض ہے وہیں پی ڈی پی سے بھی ناراض ہونا قرین قیاس ہے کیوںکہ دونوں نے ساتھ مل کر حکومت چلائی اور مشکل تر حالات میں بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو عوام کے قرار کا باعث ہو، مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ بات مضبوطی کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ اب اگر انتخاب ہوتا ہے تو دونوں جماعتوں کی راہیں مشکل ہیں اور ان کا سیدھے طور پر نیشنل کانگریس کو فائدہ ملنے کی امید ہے، جس کا پارٹی کو احساس ہے اور عمر عبداللہ نے محبوبہ کو اکسانے کی کوشش کی اور کہا کہ محبوبہ اتحاد توڑ کر دکھائیں، اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نیشنل کانگریس اس موقع کو بھنانے کے فراق میں ہے اور چاہتی ہے کہ یہ اتحاد ٹوٹے اور وادی میں انتخاب دوبارہ ہو۔ ان کی قسمت کا تارہ چمکے، سیاسی تبدیلی آئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کانٹوں بھرے تاج کو وہ اپنے سر پر رکھتی ہیں یا سخت مقابلہ کا حوصلہ کر پائیں گی؟ محبوبہ مفتی کے لئے آسان نہیں ہے اور ان کے معاملہ پر آگے کنواں اور پیچھے کھائی کی مثال پوری طرح صادق آرہی ہے اور جگرؔ کا یہ شعر بھی ؎
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے